Friday, February 3, 2017


برائت کی ضرورت

کسی بھی شئی کی ترقی یا اس کا منزل کمال تک پہونچنا اس بات  پر منحصر ہے کہ ہر وہ شئی جو اس کی ضرورت کی ہو اسے اپنائے اور ان چیزوں سے دوری اختیار کرے جو اس کے لئے نقصان کا سبب بنتی ہیں ۔مثال کے طور پر ایک شہد کی مکھی ان پھولوں پر بیٹھتی ہے جو اس کےلئے  فائدے بخش ہوتے  ہیں اور ان پھولوں  سے بیزاری اختیار  کرتی ہے جو اسے نقصان پہونچا سکتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ  اگر اسے  اصل شہد آمادہ کرنا ہے تو بیزاری اس کے ہر عمل میں لازم اور ضروری ہے۔
برادران عزیز  یہی بیزاری۔ ہماری دُشمنان اہل بیت  علیھم السلام سے ہونا واجب ہے۔   

قال الامام الصادق علیہ السلام:

حُبّ ُ أَوْلِيَاءِ اللَّهِ وَاجِبٌ وَ الْوَلَايَةُ لَهُمْ وَاجِبَةٌ وَ الْبَرَاءَةُ مِنْ أَعْدَائِهِمْ وَاجِبَةٌ۔
اولیاءِ خدا سے دوستی اور ان کی ولایت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرنا واجب ہے۔ ( بحار الانوار؍ ج ۱۰؍ ص ۲۲۶)

یعنی مؤمن کی زندگی دو چیزوں پر مشتمل ہے: ایک ان چیزوں پر عمل کرنا جو اہل بیت علیھم السلام کا بتایا ہوا  ہے یعنی علی  علیہ السلام و  اولاد علی علیہ السلام کی ولایت اور محبت اور دوسری اورر ان سے برائت رکھنا جن سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے  یعنی دشمنان اہل بیت علیھم السلام سے ۔ یہ اسلام کی بنیادی اشیاء  ہیں ہم ان سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے۔
تبرّا باطل سے اظہار برائت ہے میں سمجھتا ہوں کہ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ ہر کلمہ گو برائت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے کیونکہ ہر مسلمان حضرت آدمؑ حضرت ابراہیمؑ حضرت موسیؑ اور عیسی ؑ اور حضرت محمد مصطفے ﷺ سے اظہار محبت کے ساتھ ساتھ ابلیس ، نمرود،فرعون،ابو لہب اور ابو جہل وغیرہ سے اظہار نفرت کرتا ہے اور یہی اظہار نفرت حقیقت میں تبرّا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے :
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اول نماز دوسرے روزہ تیسرے حج ،چوتھے زکوۃ  اور پانچویں ولایت۔اور ان چیزوں میں سے کسی کے بارے میں اس طرح کا حکم صادر نہیں ہوا جس طرح ولایت علی علیہ السلام کے بارے میں حکم دیا گیا ہے ۔                                                                                                                                                    ( اصول کافی ؍ ج ۲ ص ۱۸۸)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا : 
دین کی بنیاد اہل بیت رسول علیھم السلام اور ان کے دوستوں سے دوستی پر قائم ہے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا اطاعت اور اتباع میں شامل ہےے ۔                                                                          ( اصول کافی ؍ ج ۲ ص ۱۸)

امام جعفر صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں :
حضرت رسول خدا ﷺ نے اپنے اصحاب سے ایک دن پوچھا کہ ایما ن کا سب سے مستحکم وسیلہ جو صاحب عمل کو نجات دلائے اور اسے سعادت ابدی پر فائز کرے کون سا ہے ؟  اس سوال پر کسی نے جواب دیا نماز، کسی نے کہا روزہ کسی نے کہا زکوۃ     اور کسی نے کہا حج اور عمرہ اور کسی نے کہا جہاد۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم لوگوں نے جن چیزوں  کے بارے میں بتایا ہے وہ چیزیں اپنی جگہ فضیلت تو رکھتی ہیں لیکن ایمان کے لئے اس وقت تک محکم وسیلہ نہیں بن سکتیں جب تک ایمان کی بنیاد خدا اور اس کے رسول سے دوستی اور خدا اور  رسول کے دشمنوں سے بیزاری پر نہ ہو ۔                  ( اصول کافی ج ؍۲ ص ۱۲۵)

امام رضا  علیہ السلام نے فرمایا :
جن لوگوں نے محمد و آل محمدﷺ پر مظالم ڈھائے ہیں ان سے بیزاری واجب ہے ۔جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام سے لڑنے والوں،صفین میں معاویہ کی طرف سے جنگ کرنے والوں اور نہروان کے خارجیوں سے بیزاری اور اسی طرح ان لوگوں سے بیزاری جنہوں نے ولایت علی علیہ السلام سے انکار کیا واجب ہے  اور اسی کے بر عکس حضرت علی علیہ السلام کی اتباع کرنے والوں مثلا سلمان، ابوذر،مقداد، عماراور ابو سعید خدری وغیرہ سے دوستی واجب ہے ۔              ( عیون اخبارالرضا ؍ ص ۲۶۸)

اِس موقع پر برُے کو بُرا کہنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے اس لئے کہ تحقیق کے بعد بر اکہنے والے شخص کی ہمنوائی اور پیروی میں دوسرے لوگ بھی اسی لٹیرے کو برُا کہیں گے اسی سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کریں گے ۔اس کے شر سے محفوظ رہنے کی کوشش کریں گے اور خود برُائیوں سے پرہیز کریں گے ۔ اب ایسی صورت میں برا کہنے والا اور حق بات کا اظہار کرنے والا  شخص قابل ستائش ہے یا قابل اعتراض؟یقینا ہر انصاف پسند انسان یہی فیصلہ کرےگاکہ اس لٹیرے کو برا کہنا محض اخلاقی فریضہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی مذہبی عبادت بھی ہے اور ایسے مواقع پر برے شخص  کو برُا کہنا یا اس طرز عمل کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا خود ایک ظلمِ عظیم اور گناہِ کبیرہ ہے ۔اسی آخری دلیل کے تحت نہ صرف شیعہ بلکہ دنیا کے تمام حق پسند افراد برُے شخص کو برُا کہنا ضروری سمجھتے ہیں ۔اسی کو برائت اور تبرّا کہتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment