Monday, March 13, 2017

Khutba Of J.Zainab (s.a)


بسمہ تعالیٰ و بذکر ولی العصر(عج) ادرکنیٰ
واقعہ کربلا کے بعد جسطرح اسیرانِ کربلا  کوفہ و شام کے بازاروں کا سفر کرکے دربارِ یزید میں لائیےگیے ایک امر محال ہے کہ اُسے بیان کیا جائے۔ ہر پہلوایک سخط مرحلہ رکھتا ہے کہ  نہ تودلِ مومن اُسے برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی بیان کرسکتا ہے۔خدا جانے کہ اُن خانوادہ عصمت طہارت کے قلب اور اُنکے حوصلے کیسے پہاڑ شکن تھے کہ اُنھوں نے اُن مصائب کو برداشت کیا اور حضرت امام حُسینؑ کے اُس عظیم مقصد کو فوت ہونے سے بچالیا۔
جب سیدانیاں دربارِ یزید(لعن) میں لائی گیئں اور اُس ملعون نے خانوادئے عصمت و طہارت سے بدکلامی کرنا چاہی اور نازیبا کلمات سے رسول ﷺ اور آلِ رسول کو مخاطب کرنا چا ہا تو صاحب لواء کی بیٹی مرکز آیت تطہیر کی دلبند،روز عاشور چراغِ امامت کو بجھنے سے بچانے والی، عالمۃغیر معلّمہ خاتون نے اپنے لہجے کو تبدیل کرتے ہوئے اندازممبر سلونی کو اختیار کیا اور ایک ایک سے مخاطب ہوئیں۔ اُس خطبہ کا بیان کتاب لھوف میں شیخ عبآس قمیّ (رح) نے اسطرح بیان 
کیا کہ۔
بی بی نے خداوند عالم کی حمدو ثنا کی اور رسول اللہﷺ پر درود سلام بھیجنے کہ بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:
ثُمّ کَانَ عَا قِبَتہُ الَّذیٔنَ اَسَاؤُا السُّوُا۔۔ ۔۔۔۔ کانو بھا یستھزون۔
وہ لوگ کہ جنھوں نے برے اعمال انجام دئیے اُن کے اعمال کی عاقبت یہاں تک پہنچ گئی آیات خدا کو جھٹلایا اور اس کا 
مسخرا اُڑایا۔

اظننت یا یزید حیث اخذت علینا اقطار الارض وافاق فاصبحنا نساق کما تساق الاساری۔
اے یزید کیا تو یہ خیال کرتا ہے کہ تونے ہم پر زمین و آسمان تنگ کردیا ہے، اور ہمیں قیدیوں کی طرح شہر بہ شہر پھرارہا ہے۔ اور ہم خدا کے نزدیک ذلیل و خوار ہو گئے ہیں، اور تیری عظمت و بزرگی میں اضافہ ہوا ہے، اور تیرے اعمال عظمت پر دلالت کرتے ہیں؟ اور تو اس بات پر خوشحال ہے اور فخر کر رہا ہے تیری دنیا آباد ہوگی اور تیرا کام تیری منشاء کے مطابق ہوا ہے، اور شہنشایت پر تیری مہر لگ گئی ہے۔

تو فکر وتامل کر کیا تو خدا کے اس کلام کو بھول گیا ہے؟ ولا یحسبن الذین کفروااور یہ خیال نہ کریں وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا کہ یہ چند روز کی جو مہلت ان کو دی گئی ہے یہ ان کے لیئے سعادت و خوشی بختی ہے۔ ہر گز ایسا نہیں ہے انھیں مہلت دی گئ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر اضافہ کریں، اور اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
امن العدل ےا بن الطلقاء تخدیرک حرائرک وامائک و سو قک بنات رسول اللہ سبایا قد ھتک ستو رھن و ابدیت وجو ھھن تحدوبھن الاعداء من بلد الی بلد

 کیا یہی انصاف ہے کہ اے آزاد شدہ غلاموں کی اولاد! کہ تو اپنی کنیزوں کو تو پردہ میں بیٹھا ئے ، اور پیغمبر کی بیٹیوں کو بے مقنہ و چادر برہنہ سر و صورت دشمنوں کے ہمراہ شہر بہ شہر پھرائے اور ہر مقام کے باشندے، اور دورو نزدیک، پست و شریف لوگ ان کا تماشا دیکھیں جب کہ اُن کے مردوں اور حامیوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں ہے؟
ہاں اُن لوگوں سے کیسے رحم و مہربانی کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ جنھوں نے ُمتقی و پرہیزگار لوگوں کے جگر کو منہ میں چبایا ہو، اور اُنکے بدن کی پرورش شھداء کے خون کے ساتھ ہوئی ہو اور وہ ہماری دشمنی میں کیسے کوتاہی کر سکتے ہیں۔ جن کے دلوں میں ہمارے خلاف دشمنی و حسد رہی ہے، اور اب بھی تم اس طرح تکبر و غرور میں مست ہو کہ گویا تم اپنے گناہ کی طرف متوجہ ہی نہیں یا تم نے کوئی گناہ ہی انجام نہیں دیا۔ اور ابا عبداللہ سید جوانان اہل بہشت کے مقدس دانتوں پر چھڑی مار رہا ہے اور یہ اشعار کہہ رہا ہے:

لا ھلوا و استھلوافرحا    ثم قالو یا یزید لا تشل
 لیت اشیاخی بدر شھدوا  وقعۃ الخزرج من وقع الا سل
تو یہ ایسی باتیں کیوں نہ کہے اور ایسے اشعار کیوں نہ پڑھے جب کہ تیرے ہا تھ اولاد رسولﷺ کے خون سے رنگیں ہیں۔ اور عبد المطلب کے نور نظر زمین کے درخشاں ستارے خاموش ہوگئے، تونے اپنے اس اقدام کے ساتھ اپنی ھلاکت کا سامان مہیا کیا ہے اور اب تو اپنے قبیلہ کے گذ شتہ بزرگوں کو پکار رہا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ وہ تیری باتیں سن رہے ہیں لیکن جلد ہی تو بھی انکے ساتھ ملحق ہو جائے گا اور اس جگہ پر تو آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ خشک ہو جاتے اور میری زبان گنگ ہوجاتی اور نہ کہتا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے اور نہ کرتا جو کچھ میں نے کیا ( ہیاں پر جناب زینبؑ نے بد دعا کی اور کہا:
اے خداوند قادرو توانا ! جنھوں نے ہم پر ظلم کیا اُن سے ہمارا انتقام لے، اور اُنھیں دردناک آگ میں جلا۔


No comments:

Post a Comment